ذکر ہوتا ہے جہاں بھی مرے افسانے کا


ذکر ہوتا ہے جہاں بھی مرے افسانے کاایک دروازہ سا کھلتا ہے کتب خانے کا ایک سناٹا دبے پاؤں گیا ہو جیسےدل سے اک خوف سا گزرا ہے بچھڑ جانے کابلبلہ پھر سے چلا پانی میں غوطے کھانےنہ سمجھنے کا اسے وقت نہ سمجھانے کا میں نے الفاظ تو بیجوں کی طرح چھانٹ دیئےایسا میٹھا ترا انداز تھا فرمانے کا کس کو روکے کوئی رستے … Continue reading ذکر ہوتا ہے جہاں بھی مرے افسانے کا